رمِ آہو : معاصر اردو غزل کا نمائندہ مجموعہ

 




اسماء جبین، ہنگولی 




    معاصر اردو شعر و ادب کی دنیا میں جدید لب و لہجے کے معروف و ممتاز شاعر خان حسنین عاقب کا نام اور شخصیت یقیناً کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ انھوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں ادبی میدان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا اس انداز میں منوایا ہے کہ آج ان کا شمار معاصر ادب کے نمائندہ اور نامی گرامی شعرا میں کیا جاتا ہے ۔  
    درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ حسنین عاقب کو ہندی، اردو، انگریزی اور فارسی جیسی مختلف زبانوں پر ملکہ حاصل ہے ۔اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کی باوقار ڈگریاں حاصل کیں اور اپنی اسی علمی، فکری اور تعلیمی فعالیت کی وجہ سے ملک و بیرون ملک میں معروف ہیں ۔ 
    آپ کا پہلا مجموعہ کلام "رم آہو" ۲۰۱۳ میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا جس میں ان کی غزلیں شامل ہیں ۔ ان غزلوں کے ہر شعر میں مختلف موضوعات کو شعری سانچے میں ڈھال کر قارئین کے ذوق کو دعوت تسکین دی گئی اور یقیناً یہ ایک آرٹ ہے جو شاعر کے اعلی معیارِ فن کی نشان دہی کرتاہے ۔جب شاعر اپنے خیالات، احساسات و تجربات کو بحسن و خوبی قافیہ و ردیف کی بندشوں کی پاسداری کے ساتھ آمیز کرتا ہے تب قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہی تاثر رم آہو کے مطالعے کے بعد اردو غزل کا ایک عام قاری بھی  آسانی سے حاصل کرے گا ۔ 
    خان حسنین عاقب کی شاعری معاشرتی بدمعاملگیوں پر احتجاج ،پند و نصیحت ،فکر و عمل جیسے مختلف پہلوؤں کے ذریعے نسل نو کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔  ان کی شاعری جدید لب و لہجے کی نمائندگی کرتی ہے جس نے قلیل عرصے میں معیاری رسائل و جرائد کے علاوہ انٹرنیٹ، فیسبوک و دیگر ویبسائٹس کے ذریعے باذوق حلقے میں مقبولیت حاصل کرلی ہے ۔ اس مجموعہ  غزلیات (رم آہو) کی تمام غزلیں قاری کے ذہن پر اپنا گہرا نقش چھوڑ جاتی ہیں۔۔۔۔
    اپنی غزلوں میں شاعر نے کہیں بے فیض سر بلندی کی حقیقت سے روشناس کرایا ہے تو کہیں قناعت و شکر گزاری کی اہمیت سے واقف کروایا ہے، کہیں ظلم اور مظلومیت کے عنوان کو موضوع بحث بنایا ہے تو کہیں ذکر اسلاف کے پاس پردہ ہماری غیرت ایمانی کو للکارا ہے۔ انھوں نے کہیں عشق حقیقی کو سرمایہ زیست گردانا ہے تو کہیں عشق مجازی کے ذکر میں خلوص و وفا کو اولین ترجیح دی ہے ۔ یعنی یہ کہ زندگی کے ہر رنگ برنگے پہلو کو اپنی شاعری کا حصہ بناکر قارئین اور اہلِ فن و اہل نقد، سب کو متاثر کیا ہے ۔ 
عاقب کے تخیّل کی لامحدودیت پر غور کریں تو ان ہی کی غزل کا ایک شعر یاد آتا ہے ۔

"ہر اک موضوع پر رکھتے ہیں یہ نظریں
میرے اشعار تھوڑے من چلے ہیں"

    اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ معیاری شاعری محض لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ اہل ذوق کی ضیافت طبع کا وہ سامان  ہے جسے شاعر کے احساسات و جذبات سے سینچا گیا ہے ۔ شاعر کے تخیل کی بلندی اس کے ہر شعر سے جھلکتی ہے ۔ بالخصوص وہ شاعری قارئین کے دلوں میں تادیر زندہ رہتی ہےجو پڑھنے والے کو ناامیدی، خوف اور مایوسی کے دلدل سے نکال کر امید یقین اور محنت کی دنیا میں لے آئے ۔
    حسنین عاقب کی گوناگوں خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی غزلوں کے بارے میں رم آہو کے ابتدائی مضمون میں ظفر گورکھپوری اپنے احساسات ان الفاظ میں قلمبند کرتے ہیں کہ" زندگی کو ایک چیلنج سمجھ کر اس سے نبردآزما ہونے اور اس پر فتح پانے کا ناقابل تسخیر جذبہ عاقب کی غزلوں میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے اور میری رائے میں یہی مثبت فکر ہے"۔
اسی نظریے کے عکاس چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ 

اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے
زندگی میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے


اڑنے کی آرزو ہے تو کیجئے نہ پیش و پس
دو چار پر تو ٹوٹیں گے اونچی اُڑان میں



ہوا کے شور سے چہرے کئی اترنے لگے
یہ کیسے لوگ ہیں جو زندگی سے ڈرنے لگے


    شاعری میں زندگی کے تمام داخلی و خارجی مسائل، الجھنیں  اور ان مسائل کا حل پیش کرنا شاعر کی فکری بالیدگی کا ثبوت ہے ۔ 

"گرتی دیواریں دوبارہ بھی تو اٹھ سکتی ہیں
مصلحت یہ ہے کہ بنیاد سنبھالی جائے

کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو
وہ مل گیا ہے اس سے ملاقات بھی تو ہو

تم تو چلے گئے میری دنیا کو چھوڑ کر
لگ کر کھڑا ہے کون یہ دل کے کواڑ سے


    زندگی کی ہار جیت میں ہار کو جیت کی نوید سمجھنا یقیناً اعلیٰ ظرفی کی بات ہے ۔ ایسا ہی ظرف ان کی اکثر غزلوں میں نظر آتا ہے مثلاً یہ اشعار دیکھیں ۔۔۔

ہار کر بازی پھر ایک تدبیر ہو جاؤں گا میں
تم سمجھتے ہو یوں ہی تسخیر ہو جاؤں گا میں


    انداز بیاں کی اگر بات کی جائے تو رم آہو میں شامل غزلوں میں تخاطب کو بڑا دخل ہے  جو پڑھنے والوں کو شاعر کے رو بہ رو متصّور کراتا ہے جیسے۔۔۔۔

"کرو محسوس تم بھی اے امیرو! 
تمہیں تھوڑی ضرورت دے رہا ہوں"

مفلسی نخرے تیرے اب ختم کر
میں بھی دولت کے قصیدے گاؤں کیا؟ 

ہم تو چلتے ہیں تُجھے ساتھ لیے چلتے ہیں
زندگی تجھ کو یہاں کس کے بھروسے چھوڑیں؟ 


    الغرض کتاب کی ضخامت کم اور معنوی وُسعت زیادہ ہے لیکن اختصار ہماری مجبوری ۔یہ چند مخلصانہ الفاظ شاید ہی محترم کی غزلوں کی مختلف جہتوں کو واضح کرسکیں اور نہ ہی اس راقم کا قلم اس کا اہل ہے۔ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے عصر حاضر کے غزل گو شاعروں میں اپنی پہچان بنانے والی حسنین عاقب کی شخصیت شدّت احساس کے نئے راستے پر گامزن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قلیل عرصہ میں تخلیقی بلندیوں کے نئے ادوار سے گزررہے ہیں ۔
    بحیثیت قاری میرا خیال ہے کہ حسنین عاقب کی قدردانی اور ان کے کلام کی پذیرائی ہمارا فریضہ بن جاتا ہے ۔ آئیے ہم اپنا یہ فریضہ ادا کرنے کی شروعات کریں ۔

Comments